تفسير ابن كثير



سورۃ الكهف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا[80] فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا[81]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے تو ہم ڈرے کہ وہ ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں پھنسا دے گا۔ [80] تو ہم نے چاہا کہ ان دونوں کو ان کا رب اس کے بدلے ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور شفقت میں زیادہ قریب ہو۔ [81]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے۔ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انہیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز وپریشان نہ کر دے [80] اس لئے ہم نے چاہا کہ انہیں ان کا پروردگار اس کے بدلے اس سے بہتر پاکیزگی واﻻ اور اس سے زیاده محبت اور پیار واﻻ بچہ عنایت فرمائے [81]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ دنوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ (وہ بڑا ہو کر بدکردار ہوتا کہیں) ان کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے [80] تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کی جگہ ان کو اور (بچّہ) عطا فرمائے جو پاک طینتی میں اور محبت میں اس سے بہتر ہو [81]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 80، 81،

اللہ کی رضا اور انسان ٭٭

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس نوجوان کا نام جیسور تھا۔ حدیث میں ہے کہ اس کی جبلت میں ہی کفر تھا۔ [صحیح مسلم:2661] ‏‏‏‏ خضر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بہت ممکن تھا کہ اس بچے کی محبت اس کے ماں باپ کو بھی کفر کی طرف مائل کر دے۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس کی پیدائش سے اس کے ماں باپ بہت خوش ہوئے تھے اور اس کی ہلاکت سے وہ بہت غمگین ہوئے، حالانکہ اس کی زندگی ان کے لیے ہلاکت تھی۔ پس انسان کو چاہیئے کہ اللہ کی قضاء پر راضی رہے۔ رب انجام کو جانتا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں۔ مومن جو کام اپنے لیے پسند کرتا ہے، اس کی اپنی پسند سے وہ اچھا ہے جو اللہ اس کے لیے پسند فرماتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کے لیے جو اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں، وہ سراسر بہتری اور عمدگی والے ہی ہوتے ہیں۔ [مسند احمد:117/3:صحیح] ‏‏‏‏ قرآن کریم میں ہے «وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ» [ 2-البقرہ: 216 ] ‏‏‏‏ یعنی بہت ممکن ہے کہ ایک کام تم اپنے لیے برا اور ضرر والا سمجھتے ہو اور وہی دراصل تمہارے لیے بھلا اور مفید ہو۔

خضر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم نے چاہا کہ اللہ انہیں ایسا بچہ دے جو بہت پرہیزگار ہو اور جس پر ماں باپ کو زیادہ پیار ہو۔ یا یہ کہ جو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہو۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس لڑکے کے بدلے اللہ نے ان کے ہاں ایک لڑکی دی۔ مروی ہے کہ اس بچے کے قتل کے وقت اس کی والدہ کے حمل سے ایک مسلمان لڑکا تھا اور وہ حاملہ تھیں۔
4964



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.